ضلع کی تاریخ
ضلع موسٰی خیل بلوچستان کی شمال مشرقی سرحد پر واقع ہے جو خیبر پختونخوہ اور پنچاب سے منسلک ہے۔ ضلع 7552مربع کلومیٹر کے علاقے پر مشتمل ہے۔ ضلع چار تحصیلوںموسٰی خیل ،درگ،کنگری اور توشر میں تقسیم ہے۔ ضلع کا دارلحکومت موسٰی خیل بازار ہے۔
ابتدائی تاریخ کے مطابق یہ علاقہ صوبہ قندہار کا حصہ تھا۔1505 میں مغلوں نے صوبہ قندہار کوفتح کیااور 1559ء عیسویں تک اس پر قابض رہے۔ اس کے بعد ایران کے بادشاہ سفاودنے اسے حاصل کیا۔مغلوں نے اس صوبے کو1595 ء عیسویں میں دوبارہ حاصل کر لیا لیکن 1622 ء عیسویں میں ایران کے سفاود بادشاہوں سے ہار گئے ۔ 1709 ء عیسویں میں افغان باشندوں نے میروائس غلزئی کے تحت غلزئی سلطنت قندہا ر میں قائم کی۔غلزئی سلطنت کو نادر شاہ نے 1737 ء عیسویں میں تباہ کر دیا۔ 1747 ء عیسویں میں نادرشاہ کے قتل کے بعد پہلی جمہوری حکومت افغانوں نے قندہار میں قائم کی اور احمد شاہ درانی حکمران منتخب ہوئے ۔1826میں پہلے امیر افغانستان دوست محمد بارکزئی نے علاقع فتح کیا اور اسے افغانستان میں شامل کیا۔افغانستان کی جنگ کے پہلے حصے 79-1878 ء عیسویں میں برطانیہ نے شمالی بلوچستان کے علاقوں پر گندا مارک معاہدے کے تحت کنٹرول حاصل کرلیا ۔ اور84-1879 ء عیسویں کے درمیان برطانیہ کے اثرورسوخ کو کھیتران اور موسٰی خیل تک بڑھانے کی کوششیں کیں جو کہ اب موسٰی خیل کے علاقے ہیں۔یکم نومبر 1887کو تمام علاقہ برطانوی انڈیا کا حصہ قراردے دیا گیا ژوب ایجنسی 1890میں قائم کی گئی اور موسیٰ خیل کے علاقے اس سے منسلک کئے گئے ۔1892 میں موسیٰ خیل کو تحصیل بنا یا گیااور اکتوبر 1903میں لورلائی ضلع میں تبدیل کر دیا گیا۔ موسٰی خیل تحصیل صدر یونین کونسل ، سرخاوہ ،توسار، زام ،گھراسا اور واہ حسن خیل یونین کونسلوں پر مشتمل ہیں۔ موسٰی خیل1جنوری 1992کو ضلع بن گیا جب لورلائی ضلع تین اضلاع میں تقسیم ہوا۔ جن کے نام موسٰی خیل،بارکھان اور لورالائی ہیں ۔ضلع کی مقامی زبان پشتو ہے۔عمومی معلومات
موسیٰ خیل ضلع کان کنی کی صنعت، کوئلے کی کان کنی کے لئے خاص طور پر جانا جاتا ہے. کوئلے کی کان کنی علاقے میں1980 میں شروع ہوئی۔
موسیٰ خیل صوبے کے اضلاع میں سب سے زیادہ ماحول متنوع ضلع ہے. آب و ہوا بنجر اور نیم مرطوب اور زیادہ تر موسم گرما کے دوران مون سون کی بارشیں ہوتی ہے. علاقے کے قدرتی پودے نیم حاری کانٹا جنگل پر مشتمل ہے.موسیٰ خیل کے علاقے نیم حاری وسیع پتی سرسبز جنگل کی قسم سے ڈھکا ہواہے۔ درخت اوروڈی جھاڑیاں کم بکھری ہوئی محدودگھاٹیوں اور پانی کی گزرگاہوں کے کنارے پر ملتی ہیں. ایک سروے کے مطابق موسیٰ خیل کے علاقے میں 211 پودوں کی اقسام پائی جاتی ہیں۔چلخوزہ پائن ایک خطرے سے دوچار قسم ہے ۔یہاں تقریبا 75 دواؤں کے پودے ہیں جو کہ گاؤں میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔کچھ اقسام میں غیر معمولی صلاحیت تخلیق نو کی رکھتی ہیں خاص طور پر کیکر ، کاکڑی سنگی، اولیا مزوجینااور ججوبہ چودہ دودھ پلانے والی اقسام 32پرندوں کی قسمیں 7رینگنے والےجانوروں کی قسمیں اور 4جل تاپھا اور 6تتلیوں کی اقسام ریکارڈ کی گئی ہیں۔دوسروں کے ساتھ سلیمان ،مارخور اور اڑیال خاصی اہم ہے. سلیمان مارخور قومی جانور ہے۔خطرے سے دو چارشیڈول 1 (سی آئی ٹی ای ایس)بلوچستان فاریسٹ اور وائلڈ لائف ایکٹ 1974کے تیسرے شیڈیوں میں موجود د ہیں۔ان اقسام کی حیثیت اور تقسیم کے بارے میں اس وقت بہت کم معلومات دستیاب ہیں ۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سروے 2005 میں ان نشاندی والے علاقوں میں ان کی آبادی کی حیثیت معلوم نہیں ہے۔ یہ سروے بار بار باقاعدگی سے کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ان کی آبادی کے متعلق متحرک معلومات مل سکیں۔جنگلی حیات اس مصرف کےلئے بنائے گئے علاقے میں مفت شئے ہے۔ مقامی ملک اور عوام ان مارخور اور اڑیال کا خاص طور پر شکار کرتے ہیں۔ سروے کے دوران ان مارخور اور اڑیال کی ٹرافی بھی گھروں اور قبرستانوں میں ملیں جو ان جانوروں کی بڑے پیمانے پر موجودگی اور تقسیم بتاتی ہیں۔حیاتیاتی نظام کو چرنے ، کانٹے اور جھاڑیوں کو جلانے کی لکڑی اور اڑیال اور مارخور کے بچوں کو پکڑنے اور پالتو جانوروں کے طور پر بیچنے اوران کے شکار ٹرافی بنانے اور کھیل سے خراب ہورہا ہے۔