ضلع کی تاریخ
پشین کوئٹہ پشین ڈسٹرکٹ کا حصہ تھا ۔ 1975 میں انتظامی وجوہات کی وجہ سے اسے کوئٹہ سے الگ کر دیا گیا۔ پشین کا نام" پوشنگ " کا جدید انداز ہے۔ اس کا نام زمانہ جدید سے پہلے کا ہے ( ایران کے مطابق) ( اور عربی میں " فوشنگ") ہے۔ فارسی کی داستانوں کے مطابق یہ شنہشاہ افراسیاب کے بیٹے کے نام پر تھا۔ افغان حکومت کے ریکارڈ کے مطابق اسکےحجے" فوشنک" کے ہیں۔
تاریخ
اٹھارویں صدی کے وسط تک جب کوئٹہ براہوی حکمرانوں کے زیر تسلط چلا گیا ۔ پشین کی تاریخ صوبہ قندھار کی طرح تھی پشین کا نام سب سے پہلے ایوٹک لکھائی میں آیا ہے۔ جس میں پشتو نارہ ایک ایسی وادی کا نام تھا جو کہ ملک کا ایک بلند مقام تھا اور ایک بہت بڑے میدانی علاقے ( دشت) پر مشتمل تھا۔
13 صدی عیسوی تک کوئٹہ پشین کی بہت کم تاریخ موجود ہ ہے یہ 1221 کا وقت تھا جب قندھار اور اسکے علاقے مغلوں کے ہاتھ میں چلے گئے تھے۔ 15 صدی کے وسط تک قندھار تیموروں کے زیر تسلط تھا اور شائد اسی صدی کے شروع میں ترین جو کہ اِس وقت پشین کے لوگ ہیں اَُن کے آبادواجداد اپنے گھر تخت ِسلمان سے ہجرت کر کے پشین میں آباد ہوئے تھے۔
1530 سے 1545 تک قندھار کا صوبہ شہنشاہ ہمایوں کے بھائی مرزا کامران کے زیر تسلط تھا1556 میں اُس کی وفات کے بعد صوبہ قندھار اور اسکے علاقے سفاید ایرانی بادشاہ کے زیر تسلط چلا گیا اور 1595 تک یہ ایرانیوں کے زیر تسلط رہا اسکے بعد یہ دوبارہ مغلوں کے زیر تسلط آ گیا۔ آئین اکبری کے مطابق " شال" اور پوشنگ" کے علاقے کو قندھار سرکار کا مشرقی ضلع بنا دیا گیا۔ 1622 میں قندھار دوباہ سفائیڈ سلطنت کا حصہ بن گیا اور کچھ وقت تک ایران کے زیر اثر رہا۔
1622 میں سیفائیڈ بادشاہ نے دوباہ قندھار کا قبضہ حاصل کر لیا۔ اُس نے پشین قبائلی علاقے شیر خان ترین کے زیر اثر دے دیا سترویں صدی کے آخر میں جب براہوی نے اپنی سلطنت کو بڑھایا۔ کوئٹہ اور پشین اس سلطنت کے زیر اثر آ گئے۔ اور میر احمدکے ہاتھوں میں چلا گیا۔ جس کی سلطنت 30 سال تک رہی جو کہ 1666 سے 1696 تک تھی۔ میر وائس غلزی نے 1709 میں قندھار پر قبضہ کر لیا۔ 1725 کے لگھ بھگ پشین کے میر عبداللہ کی غلزئیوں کے ساتھ قندھار میں لڑائی کے بعد پشین براہوی تاریخ کا حصہ بن گیا۔ 1733 میں شاہ حسن غلزئی نے براہویوں کے خلاف تحریک چلائی اور پشین کے قلعے کو فتح کر لیا اور چھاؤنی بنا دی۔ اسکے بعد وہ آگے بڑھا اور غزہ بند سے گزرنے کے بعد کوئٹہ فتح کیا۔ اسکے بعد اس نے مستونگ کی طرف پیش قدمی کی جہاں براہویوں نے ہتھیار ڈال دئے۔ اسکے بعد کوئٹہ قندھار کے زیر تسلط رہا اور نادر شاہ کو منتقل ہو گیا۔1751 میں احمد شاہ درانی نے جب ایران کے مشرقی حصوں پر حملہ کیا تو کوئٹہ کو براہوی سلطنت کا حصہ بنا دیا جب اُسے ناصر خان اول سے امداد ملی۔ احمد شاہ نے پکڑ خان بٹے زئی کو اس شرط پر کہ وہ اسےفوجی خدمات دیں گے جاگیر کے طور پر دے دی۔ پشین درانیوں سے بارکزئیوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔
برطانیہ کا دور
افغان جنگ کے پہلے مرحلے میں 1839 میں کوئٹہ برطانیہ کے ہاتھ میں چلا گیا۔ 1842 میں برطانیہ کے ہارنے کے بعد پشین اور ستروڈ افغانوں کے قبضے میں چلا گیا۔ مئی 1879 میں افغان جنگ کا پہلا مرحلہ ایک معاہدے کے بعد ختم ہو گیا جس میں لکھا گیا کہ پشین اور دوسرے اضلا ع برطانوی حکومت کے زیر اثر رہیں گے۔ 1882 میں آخری حکم دیا گیا جس کے بعد پشین مستقل طور پر برطانیہ کے زیر تسلط آ گیا۔اور اس کا دائرہ اختیار شوروڈ نامی وادی تک بڑھا دیا گیا۔
جب اپریل 1883 میں ضلع کوئٹہ کو برطانیہ کے ہاتھ میں دے دیا گیا ۔ اسکو پشین کے ساتھ انتظامی طور پر جوڑ دیا گیا اور سر ایچ ایس ہارنیزکو پہلے پولیٹکل ایجنٹ کے طور پر مقرر کیاگیا۔
1878 میں قبضہ سے پہلے اور 1879 کے اسائمٹنس کے بعد پشین ہمیشہ قندھار کا حصہ رہا ہے۔ بٹےزئی اور ترینوں نے حکومت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
برطانیہ کے قبضے سے پہلے اور1882 تک یہ ایک گورنر جنرل کے زیر سایہ تھا اور 1883 کے بعد جب کوئٹہ پشین اور شوراوڈ کو اکٹھا کیا گیا۔ یہ ایک پولیٹیکل ایجنٹ یا ڈپٹی کمشنر کے زیر سایہ آ گیا۔ یہ صورت حال تقسیم پاک و ہند 1947 تک رہی۔ 1975 تک کوئٹہ اور پشین ایک سنگل یونٹ رہا۔ پھر پشین کو کوئٹہ سے الگ کر دیا گیا اور الگ ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ 1993 میں پشین کو دوبارہ تقسیم کر دیاگیا اور ضلع پشین اور ضلع قلعہ عبداللہ بنا دیا گیا۔ اب تین اضلاع ہیں کوئٹہ ، پشین اور قلعہ عبداللہ جو کہ تقسیم سے پہلے ایک انتظامی ضلع تھا جسکا نام کوئٹہ پشین تھا۔