ضلع کی تا ریخ
کوئٹہ پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ اس کے پودوں اور جنگلی حیات کی وجہ سے اسے پاکستان کا پھلوں کا باغ بھی کہا جاتاہے۔کوئٹہ سطح سمندر سےا وسطاً 1680 میٹر (5500 فٹ) بلند ہے جو اسے پاکستان کاناصرف بڑا بلکہ سطح سمندر سےاونچا شہر بناتا ہے۔ اس کی آبادی 896090اور دو اعشاریہ آٹھ ملین کے درمیان ہے جو اسے پاکستان کا چھٹا بڑا شہر بناتا ہے۔
کوئٹہ شمال مشرقی بلوچستان میں افغانستان کی سرحد ڈیوڈرینڈلائن کے پاس واقع ہونے کی وجہ سے یہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور مواصلات کا مرکز ہے۔ یہ شہر بولان پاس کے راستے پر واقع ہے ۔ جو کہ جنوبی ایشیاء آنے جانے کے لئے واحد راستہ تھا۔
کوئٹہ شہر
کوئٹہ شہر کے ہجے "کواٹہ" کے بھی ہیں جو پشتو کا لفظ ہے جس کے معنی قلعہ کے ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شہر کا یہ نام اس کے چار پہاڑی سلسلوں (چلتن ، تکتو، زرغون اور مُردار) جنہوں نے اسکے گر د ایک فیصل بنا دی ہے کہ وجہ سے یہ نام پڑا۔ کوئٹہ کا سب سے پہلے ذکر گیارہویں صدی میں جب سلطان محمود غزنوی نے جنوبی ایشیاء پر حملہ کیااس وقت سامنےآیا ۔مغل شہنشاہ ہمایوں نے 1543 میں ایرا ن سے شکست کے بعد واپسی پر کوئٹہ میں قیام کیا اور اپنے ایک سال کے بیٹے اکبر کو یہاں چھوڑ گیا۔جب تک وہ دو سال بعد واپس آیا۔
1709 میں یہ علاقہ ہوتاکی کے اقتدار میں آیا اور 1747 میں اسے احمد شاہ درانی نے درانی سلطنت میں شامل کر لیا ۔1828 میں پہلےمغربی باشندے نے کوئٹہ کا دورہ کیا اوربیان کیا کہ یہاں ایک مٹی کی دیواروں والا قلعہ تھا۔ جس کے گرد تین سو مٹی کے گھر تھے۔
مسلم آبادی نے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی حمایت کی۔کوئٹہ کو نو تخلیق شدہ صوبہ بلوچستان کا دارلحکومت بنا دیا گیا - دوسری بلوچی شاہی ریاستوں کے ملنے سے پہلے جن میں قلات، مکران ،لسبیلہ اور خاران شامل ہیں۔ایوب خان کے صوبوں کے نظام کو ختم کرنے تک 1959 تک کوئٹہ صوبے کا دارلحکومت رہا۔صوبائی نظام کی بحالی کے بعد کوئٹہ کو دوبارہ سے بلوچستان کا دارلحکومت بنا دیا گیا۔
جغرافیہ
کو ئٹہ کا رقبہ 2653 مربع کلومیٹر (1024 مربع میل) ہے اور وادیوں کے سلسلے پر مشتمل ہےجو کہ اس کو ایک قدرتی قلعہ کی شکل دیتی ہے جس کے نام چلتن ، تکتو۔مُردار اور زرغون ہیں۔ کوئٹہ اور اس کے متصل اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان شمال مشرق میں ۔مشرق میں سبی اور ڈیرہ غازی خان ،جنوب مشرق میں سکھر اور جیکب آباد ، جنوب میں کراچی اور گوادر اور شمال مشرق میں زیارت کے درمیان قدرتی سرحد نہیں ہیں۔ سب سے نزدیک بڑا شہر افغانستان کا قندھار ہے جو کہ کوئٹہ کے مغرب میں واقع ہے۔
آب وہوا
کوئٹہ کی آب و ہوا نیم گرم خشک ہے جس کی وجہ سے گرمیوں اور سردیوں کے درجہ حرارت میں بہت زیادہ فرق ہے۔گرمیاں مئی کے آخر میں شروع ہوتی ہیں اور ستمبر کے شروع تک چلتی ہیں ۔جس کا اوسط درجہ حرارت 24 سے 26 سینٹی گریڈ یا 78-75 فارن ہائیٹ ہوتا ہے۔کوئٹہ کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرار ت 420C یا1080 F ہے جو کہ 10 جولائی 1998 کو ریکارڈ کیاگیا تھا ۔خزاں ستمبر کے آخر میں شروع ہوتی ہے اور نومبر کے وسط تک چلتی ہے جس کا اوسط درجہ حرارت 18-12 سینٹی گریڈ یا (55-650 F) ہے۔سردیاں نومبر کے آخر میں شروع ہوتی ہیں اور مارچ کے آخر تک چلتی ہیں جس کا اوسط درجہ حرارت 4-50 C (39-410F)کے نزدیک ہوتاہے۔
کوئٹہ کا سب سے کم درجہ حرارت -18.30C (-0.90 F) ہے جو کہ 8 جنوری 1970 کو ریکارڈ کیا گیا تھا ۔بہار اپریل میں شروع ہوتی ہے اور مئی کے آخر تک چلتی ہے ۔جس کا اوسط درجہ حرارت 150C (600F) کے قریب ہوتا ہے۔پاکستان کے مشرقی حصوں کے برعکس کوئٹہ میں مون سون میں زیادہ بارشیں نہیں ہوتی ہیں۔سردیوں میں برف باری جو کہ دسمبر ، جنوری اور فروری کے مہینے میں ہوتی ہے۔آبپاشی کا ذریعہ ہے۔
1999 سے 2001 تک شہر نے ایک بہت بڑی خشک سالی دیکھی ۔خشک سالی کے دوران شہر میں برف باری بھی نہیں ہوئی اور بارش بھی اوسط سے کم ہوئی۔2003 میں شہر میں 5 سال کے وقفے کے بعد برف باری ہوئی۔2004 اور 2005 میں شہر میں نارمل بارش ہوئی اور برف باری بھی ہوئی۔2006,2007 اور 2009 میں شہرمیں برف باری نہیں ہوئی اور 29 جنوری 2008 میں شہرمیں چار گھنٹے میں چار انچ برف باری ہوئی۔2 فروری 2008 کو شہرمیں 10 سالوں کی سب سے زیادہ برف باری ہوئی جو کہ دس گھنٹے میں دس انچ برف باری ہوئی ۔2010 کے سردیوں میں ایل-نینو کی وجہ سے پاکستان میں اوسط سے کم بارشیں ہوئیں۔
حکومت اور سیاست
پاکستان کے انتظامی نظر ثانی کے تحت جو کہ 2001 میں ہوئی تھی۔ کوئٹہ کو سٹی ڈسٹرکٹ میں تبدیل کردیاگیا ۔اور اسے دو قصبوں میں تقسیم کیا گیا۔اُن میں بہت سی یونین کونسلیں شامل ہیں۔
نقل و حمل
کوئٹہ کا ریلوے اسٹیشن پاکستان کے اونچے ریلوے اسٹیشنوں میں سے ایک ہے جس کی سطح سمندر سے اونچائی 1676 میٹر یا 5495 فٹ ہے۔یہ ریلوے لائن برطانیہ کے دور میں 1890 میں کوئٹہ کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے کے لئےبچھائی گئی تھی۔
ریلوے کا نظام کوئٹہ کو جنوب میں کراچی سے ملاتا ہے جس کی لمبائی 863 کلومیٹر (536 میل)ہے۔شمال مشرق میں لاہور (1170 کلومیٹر یا 727 میل) اور شمال مشرق میں پشاور (1587 کلومیٹر یا 986 میل)۔ ریلوے کے ساتھ ساتھ ایک سڑک بھی چلتی ہے جو کوئٹہ کو کراچی سے بذریعہ سبی ، جیکب آباد اور روہڑی کے ملاتی ہے۔
کوئٹہ بذریعہ سڑک تمام ملک سے ملا ہواہے۔ایک سڑک اسے بذریعہ مستونگ ، قلات، خضدار اور لسبیلہ کراچی سے ملاتی ہے ۔ بقیہ بڑی سڑکیں کوئٹہ سے کراچی ، بذریعہ سبی ۔جیکب آباد ، سکھراور حیدر آباد اور دو سڑکیں کوئٹہ سے لاہور ایک (پرانی) بذریعہ سبی، جیکب آباد،سکھر ،رحیم یار خان ،بہاولپور اور ملتان اور دوسرا راستہ بذریعہ خانوزئی ، مسلم باغ ، لورالائی ، فورٹ منڈرو، ڈیرہ غازی خان اور ملتان ہیں۔ کوئٹہ ،افغانستان سے بذریعہ چمن ملا ہوا ہے اور ایران سے مستونگ ، نوشکی ، دالبندین اور تفتان ملاہوا ہے۔
تعلیمی ادارے
کوئٹہ میں اعلیٰ تعلیم کے بہت سے ادارے ہیں۔
- اسلامیہ اسکولز جنہیں قائد اعظم نے چھوٹا علیگڑھ کہا تھا۔
- فیڈرل گورنمنٹ ڈگری کالج (ایف۔جی)
- تعمیر نو پبلک کالج
- ملٹری کمانڈ اینڈ سٹاف کالج سے جسے برطانیہ نے 1905 میں بنا یا تھا ۔جسکی صد سالہ تقریبات 2005 میں منائی گئی ہیں۔
- یونیورسٹی آف بلوچستان جو 1974 میں قائم ہوئی۔
- بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجنئیرنگ اینڈمنجمنٹ سائنسیز(بی یو آئی ٹی ای ایم ایس)
- سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی
- بولان میڈیکل کالج
- ایگریکلچر انسٹیٹیوٹ
- جیالوجیکل سروے آف پاکستان
جانور اور پودے
دودھ پیلانے والے جانور جیسے مارخور (جنگلی بھیڑ) کوئٹہ کے علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ لوکل پرندے جیسے تیتر ، واربلرز ،بلیوراک کبوتر، گولڈن ایگل ، چڑیا ، ہاکس شاہین اور داڑھی والے گدھ ملتے ہیں۔
کل 225 نسل کے پودے اس علاقے میں ہیں جن میں پستہ، جونئپر، جنگلی زیتون، وائلڈایش اور جنگلی بادام شامل ہیں ۔اس کے علاوہ جنگلی انجیر ،بُربیری ، جنگلی چیری ، مکھی بھی ملتی ہیں اس کے علاوہ جنگلی جھاڑیاں جیسے ایفرڈیار انٹی میٹلایا اور گارڈ ینیا شامل ہیں۔
ہنہ جھیل شہر کے مشرق سے 10 کلومیٹر (6 میل) کے فاصلے پر ایک فیروزی جسم کی طرح پہاڑوں کے درمیان واقع ہے یہ ایک پُر کشش جگہ ہے جہاں پر کشتی کرائے پر حاصل کرنے کی سہولت بھی ہے اس کے ایک طرف آب پاشی کا ڈیم ہے اور اس کے مشرق میں پانی کے کھیل کا تربیتی مرکز حیات درانی اسپورٹس اکیڈمی ہے جو کہ بلوچستان کا واحد پانی کے کھیل کا تربیتی مرکز ہے،کوئٹہ کے شمال مغرب کی طرف پر ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک 20 کلومیٹر دور ہے۔مارخور کے لئے پارک ایک محفوظ علاقہ ہے،پارک کا نام"ہزار گنجی" کا مطلب "ہزاروں خزانے ہیں" جو کہ بتیس ہزار پانچ سو ایکڑ یا (132 مربع کلومیٹر) پر پھیلا ہوا ہے ۔ جس کی اُونچائی دوہزار اکیس سے تین ہزار دو سو چونسٹھ میٹر یا (5625 سے 10700 فٹ) ہے ۔ان پہاڑوں کے درمیان بڑوں کے مطابق ہزاروں دفن کئے گئے خزانے ہیں جو کہ جاتے ہوئے مختلف افواج جیسے سکوتی ، باختریوں ، مسلمانوں اور منگولیوں نے دفن کئے تھے۔
پیر غائب کوئٹہ شہر سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر تاریخی بولان پاس میں ایک آبشار ہے۔کرخسہ کوئٹہ سے 10 کلومیٹر (6.2 میل) مغرب میں16 کلومیٹر تنگ وادی ہے جس میں ہزاروں پودے اور جانور وںکی اقسام ملتی ہیں۔چلتن پہاڑی پارک شہر کا ایک دلفریب نظارہ پیش کر تا ہے ،سیاحوں کے لئے کرانی اور زیارت مشہور سیاحتی مقام ہیں کوئٹہ سے آنے جانے کے لئے سریا ب روڈ پر واقع ارضیانی میوزیم بلوچستان میں چٹانوں اور کاز کا ایک مجموعہ ہے ۔
- کمانڈ اینڈ سٹاف کالج ، عجائب گھربرطانوی کی فوج کا تاریخی عجائب گھر ہے۔یہ فیلڈ مارشل برنارڈ منٹگومری کے بنگلہ میں قائم ہے۔
- کوئٹہ تاریخی عجائب گھر میں پُرانی بندوقیں ، تلواریں و مسؤدات اور پتھروں کے زمانے کے آلات ،پُرانے برتن اور مہر گڑھ سے دریافت ہونے والی چیزیں رکھی گئیں ہیں۔
- 1935 کے زلزلے سے پہلے کی تصاویر، دہاتی سکے ، مسؤدات بھی موجود ہیں۔
- بلوچستان آرٹس کونسل لائبریری میں بلوچستان صوبے کے تمام آرٹس اور کرافٹس رکھے گئے ہیں۔
- شہر کی آبادی 1891 میں گیارہ ہزار سے بڑھ کر اب 1865137 اور1 207694 کے درمیان ہے اور 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا چھٹا سب سے بڑا شہر ہے۔
کوئٹہ کے تہوار اور خریداری
کوئٹہ میں ہر سال ثقافتی اور مذہبی تہوار منعقد ہوتے ہیں ۔دو عیدوں کے تہوار جو روزوں کے اختتام اور حج کے اختتام پر منائی جاتیں ہیں جس میں مسلمان موسیقی کی تقریبات، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو تحائف دیتے ہیں ، بز کشی ایک پٹھانوں کا تہوار ہے جس میں دو ٹیمیں گھوڑوں کے پشت پر بیٹھ کر ایک دوسرے سے بکرے کو چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔
کوئٹہ کے بازار شارع لیاقت (لیاقت بازار، سورج گنج بازار) شارع اقبال (قندھاری بازار) اور جناح روڈ پرمشتمل ہے،رنگین دستکاری بیچی جاتی ہے۔خاص طور پر بلوچی شیشے کا کام اور پشتون دستکاری ، افغان قالین ، فرکوٹ، کڑھائی والی جیکٹیں ، واسکٹ ، چوٹ اور دوسرے روایتی پشتون چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔
پشتون اور بلوچ قالین علاقے کےقبائل بناتے ہیں یہ عام طور پر بہت زیادہ مہنگےاور اچھے نہیں ہوتے جیسےکہ ترکی یا ایران کے قالین مگر زیادہ پائیدار ہیں ۔اُن قالینوں سے جو ایران اور ترکی کے قالینوں کی نقل ہے اور پاکستان کے بڑے شہروں میں دستیاب ہیں۔خوراک
روایتی پشتون کھانوں میں کھڈی کباب اور بھیڑ کاروش ، بلوچی سجی اور دوسری روایتی ڈشیں بھی شہر میں دستیاب ہیں۔پشتون قبیلے کی روایتی ڈش "روش" جنہیں غیرمقامی لوگ "نمکین" کہتے ہیں۔یہ شہر اور باہر کے ہوٹلوں میں پیش کی جاتی ہے ۔ملک کا سب سے اچھا چھوٹا گوشت کوئٹہ کے اردگرد کے علاقوں میں پالا جاتا ہے اور پھر ان کوہوٹلوں میں دیا جاتا ہے۔
پشتونوں کی ایک اور ڈش "لاندھی" ہےجسے پورے بکرے کو سردیوں میں سکھایا جاتا ہے اور تازہ رکھا جاتا ہے ،کھڈی کباب ایک بکرے کا باربی کیو ہوتاہے ۔سجی(بکرے کی ران)اور "پلاؤ" مقامی ڈشیں ہیں۔
شہید نوروز اسٹیڈیم شہر کا سب سے بڑا میدان ہے ۔شہر میں ایوب نیشنل اسٹیڈیم جو کہ بہت سے مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فٹبال اور کرکٹ۔